*میڈیا مالکان کے نام ۔۔۔*
یہ کچھ روز پہلے ہی کی تو بات ہے کہ ایک بڑے ٹی وی چینل کی بلڈنگ کی نگرانی کرتے شبیر چاچا کا بیٹا یرقان کے مرض میں مبتلا سرکاری ہسپتال میں داخل تھا چاچا ایک گھنٹے کی رخصت لے کہ ہسپتال بیٹے سے ملنے گئے پوری چھٹی اس ڈر سے نہ کی کہ کہیں روٹی روزی کا یہ وسیلہ چھن نہ جائے واپس ڈیوٹی پر پہنچے تو اطلاع ملی کہ چینل مالکان نے 20 ورکرز بیورو سےفارغ کر دیے چاچا شبیر اور ان جیسے باقی گارڈز مطمئن تھے کہ 15 ہزار تنخواہ لینے والے کو برطرف کر کہ مالک کو بھلا کیا بچت ہوگی مگر انکا یہ خیال غلط ثابت ہوا شام تک کی پکی خبر کے مطابق تین کیمرا مین،دو سیکیورٹی گارڈز(جن میں شبیر چاچا بھی شامل ہیں) ایک آئی ٹی ٹیکنیشین، تین این ایل ای ،چار رپورٹرز ایک ڈی ایس این جی ٹیکنیشن ،ایک خاتون ریسیپشنیسٹ،دو کاپی ایڈیٹر ایک پروڈیوسر ایک ڈیسک انچارج اور ایک میک اپ آرٹسٹ کو جبری گھر بھجوا دیا گیا۔۔۔۔المیہ دیکھیے کہ یہ وہ اسٹاف ہے جو انتہائی کم تنخواہ پر اپنا نظام چلا رہا تھا۔ اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ دھوپ گرمی ہو یا بارش یا پھر کوئی قدرتی آفات ہوں یا دہشت گردی کے واقعات کی کوریج موسموں کی تپش سے بے نیاز یہ ورکرز تن دہی سے اپنے رروزگار سے انصاف کرتے آئے اور کرتے بھی کیوں نہ کہ “سب سے پہلے ہم” کی دوڑ میں بازیاں جو لے جانی تھیں۔۔۔یہ وہ ورکرز تھے جو اپنی زندگی کے کئی سال ان اداروں کا پیٹ بھرنے کے لیے ایکسکلوزیو کے پیچھے بھاگتے رہے چھٹی کا حق ہوتے ہوئے بھی ایسے مانگی جاتی جیسی کسی سے ادھار مانگا جاتا ہے۔اور کوریج کی دوڑ میں کئی تو اپنی زندگیوں سے بھی گئے۔انتھک محنت کام سے ایمانداری ادارے سے وفاداری کا صلے میں کچھ انعام تو نہ دیا گیا البتہ نوکریوں سے ضرور فارغ کر دیا۔